تعارف

’’فنون‘‘ اُردو زبان کا ایک معیاری ادبی رسالہ ہے۔ جس میں قلم سے وابستہ فن و ادب کی مختلف اصناف مثل شاعری، افسانہ نگاری، مضامین، سفر نامہ، تنقید و تبصرہ، مزاح کے ساتھ ساتھ پینٹنگز، کیلیگرافی اور منی ایچر وغیرہ شاملِ اشاعت ہوتی ہیں۔ ’’فنون‘‘ کا طرہء امتیاز، اس میں شامل تخلیقات کا عمدہ معیار ہے جو کہ اس کے بانی مدیر جناب احمد ندیم قاسمی نے اپنی ادارت کی چار دہائیوں میں بھرپور محنت، توجہ اور لگن سے طے کر دیا تھا اور وہ آج بھی قائم ہے الحمدللہ۔

دنیا بھر کے کونے کونے سے موصول ہونے والی تخلیقات میں سے انتخاب کے وقت صرف معیار کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جبکہ تحریر کا غیر مطبوعہ ہونا اس لیے ضروری ہے تاکہ ایک ہی تحریر کی دوبارہ اشاعت سے ایسی دیگر غیر مطبوعہ تحریروں کی حق تلفی نہ ہوجو جگہ کے محدود ہونے کے باعث اشاعت سے محروم رہ جاتی ہیں۔ تحریر کا تعلق خواہ کسی بھی شہریا گاؤں سے ہو، اس کا لکھاری معروف ہو یا بالکل نووارد، اِس سے بالاتر ہو کر تخلیقات کی اشاعت کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ اِ س ضمن میں جناب احمد ندیم قاسمی کی ادارت میں جس قدر مواقع نئے اور معیاری لکھنے والوں کو فراہم کیے گئے اس کی مثال دنیا بھر کے ادبی جرائد کی تاریخ میں نمایاں تر ہے۔

باذوق قارئین میں مقبول، معیاری رسالہ ’’فنون‘‘ کا اجراء سنہ 1963ء میں ہوا۔ جس کی ادارت چار دہائیوں  نامور شاعر، ادیب اور دانشور جناب احمد ندیم قاسمی نے نبھائی، یہ پہلو اُن کی 75 برس پر محیط ادبی زندگی کی بے شمار روشن جہتوں میں سے ایک ہے۔ ’’فنون‘‘ کی ادارت سے پہلے وہ نہ صرف اپنے کالج میگزین ’’نخلستان‘‘، بچوں کا ہفت روزہ رسالہ ’’پھول‘‘، خواتین کا ہفت وار رسالہ ’’تہذیبِ نسواں‘‘ اور معتبر روزنامہ ’’اِمروز‘‘ کے مدیر رہے، بلکہ کئی ادبی رسالوں مثلا ’’ادبِ لطیف‘‘، ’’سویرا‘‘، ’’ نقوش‘‘، ’’سَحر‘‘، ’’اقبال‘‘ اور ’’صحیفہ‘‘ کی بھی منفرد اور جدت سے بھرپورادارت کی۔ احمد ندیم قاسمی کے ادبی رسالے ’’فنون‘‘ کا آغاز اپریل 1963ء میں ہوا۔ دراصل یہ 1962ء کے دن تھے جب حکیم حبیب اشعر دہلوی، مصور بشیر موجد اور ملک اسلم نسبت روڈ، لاہور پر ندیم صاحب کے ہاں اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ اُن دنوں حکیم صاحب ایک طبی رسالہ ’’حاذق‘‘ کے نام سے  اُن دنوں حکیم صاحب ایک طبی رسالہ ’’حاذق‘‘ کے نام سے نکالتے تھے جو باقاعدگی سے شائع نہیں ہو پاتا تھا۔ ان دوستوں نے طے کیا کہ اس کے بجائے ایک ادبی رسالے کا اجراء کرنا چاہیے۔ احمد ندیم قاسمی نے اس کا نام ’’فنون‘‘ تجویز کیا اور ادارت کی ذمہ داری سنبھالی۔ یوں اپریل 1963ء میں ’’فنون‘‘ کے توجہ کھینچ لینے والے پہلے ہی شمارے میں پاک و ہند کے پچاس سے زائد اُردو زبان کے نامور اہلِ قلم اور دیگر لکھاریوں نے حصہ لیا۔ نکالتے تھے جو باقاعدگی سے شائع نہیں ہو پاتا تھا۔

ان دوستوں نے طے کیا کہ اس کے بجائے ایک ادبی رسالے کا اجراء کرنا چاہیے۔ احمد ندیم قاسمی نے اس کا نام ’’فنون‘‘ تجویز کیا اور ادارت کی ذمہ داری سنبھالی۔ یوں اپریل 1963ء میں ’’فنون‘‘ کے توجہ کھینچ لینے والے پہلے ہی شمارے میں پاک و ہند کے پچاس سے زائد اُردو زبان کے نامور اہلِ قلم اور دیگر لکھاریوں نے حصہ لیا۔ اس کی تزئین مشہور مصور ’موجد‘ نے کی۔ ندیم صاحب کالم نویسی اور مشاعروں میں شرکت سے جو کماتے تھے، ’’فنون‘‘ پر خرچ کر دیتے تھے۔ یوں پُر آزمائش حالات میں بھی ندیم نے رسالہ ’’فنون‘‘ مسلسل جاری رکھا۔ ’’فنون‘‘ کے اعلی معیار اور تہذیب و فن کے لئے اس کی گراں قدر خدمات کا اعتراف ادبی دنیا نے بھرپور انداز میں کیا۔ اس رسالے کی ایک نہایت قابلِ قدر خصوصیت یہ رہی کہ اس نے تخلیقی سطح پر جوہرِ قابل کی تلاش کا ریکارڈ قائم کیا۔ اور ایسے کم از کم ایک سو سے زائد شاعر اور ادیب ڈھونڈ نکالے جو اُردو ادب کا مستقبل قرار پائے اور وقت نے اسے درست بھی ثابت کیا۔ یوں احمد ندیم قاسمی نے رسالہ ’’فنون‘‘ کے ذریعے اپنے عہد کے تہذیبی و فنی ارتقاء کی عملی تاریخ مرتب کر دی۔ ’’فنون‘‘ نے اس سوچ پر بھی زور دیا کہ جب تک معاشرہ اپنے افراد کو حصولِ تعلیم اور پرورشِ ذوق کی سہولتیں مہیا نہیں کرتا تو فنکاروں، ادیبوں، شاعروں کو اپنی معیاری تخلیقات کے ذریعے اپنی سی کوششیں جاری رکھنا چاہئیں۔ ندیم صاحب کے دورِ ادارت میں فنون کے خصوصی شمارے غزل نمبر، خدیجہ مستور نمبر، اختر حسین جعفری نمبر  شائع ھوئے، ان کے علاوہ مخصوص گوشوں کا بھی اہتمام کیا گیا۔ دو جلدوں پر مشتمل ضخیم “غزل نمبر” اُس دور کی شاعری کے حوالے سے باقائدہ ایک مُستند دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔

احمد ندیم قاسمی کے دوسری دنیا میں منتقل ہونے کے بعد ’’فنون‘‘ کی اشاعت میں عارضی تعطل آیا۔ مگرجو سلسلہ شمارہ نمبر127 پر رکا تھا، اُسے ندیم صاحب کے نواسے نیّر حیات قاسمی اور ندیم صاحب کی صاحبزادی ڈاکٹر ناہید قاسمی نے پھر سے رواں کر دیا۔ اس کی تزئین و آرائش مصورہ نفیسہ قاسمی (ندیم صاحب کی نواسی) کرتی ہیں۔ ’’فنون‘‘ کی اشاعت کے دورِ نو کی ابتدا خصوصی شمارے ’’ندیم نمبر‘‘ سے ہوئی جس میں احمد ندیم قاسمی صاحب کے ’’فنون‘‘ میں چھپنے والے ایک سو ادریوں کو اکٹھا کر دیا گیا، جو کہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام ہے۔ سنہ 2014ء میں سہ ماہی فنون کی اشاعت کے پچاس سال مکمل ہونے پر خصوصی ’’گولڈن جوبلی نمبر‘‘ جاری کیا گیا۔ الحمدللہ، معیاری اُردو ادب کی تلاش اور اُس کے فروغ کا جذبہ لیے ’’فنون‘‘ کا سفر آج بھی جاری و ساری ہے۔ بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے کلچر کی خوبصورتی کو بھی برقرار رکھنا ہمارے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔ تاکہ نوجوان نسل نہ صرف اپنے درخشاں ادبی ماضی سے آگاہ رہے بلکہ مثبت سوچ کے ساتھ اس کو روشن مستقبل کی جھلک بھی دکھائی دے۔

رواں ہوں میں ستارا در ستارا ۔۔۔۔۔۔ زمیں پر میرا سایہ جا رہا ہے (ندیم)